جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے بارے میں:
جسٹس پراجیکٹ پاکستان ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو ملک کے اندر اور باہر سزائے موت کا سامنا کرنے والے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ جے پی پی پاکستان میں سزائے موت کے اطلاق کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کر چکی ہے۔ پاکستان میں ایسے افراد بھی سزائے موت کا سامنا کر چکے ہیں جو جرم کے وقت نابالغ تھے؛ رحم کی اپیلوں کو ضابطے کی مکمل کارروائی کے بغیر یکسر مسترد کیا جا تا ہے ؛ اور سزائے موت پانے والے ایسے قیدیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے قوانین موجو دنہیں جو ذہنی بیمار یا جسمانی معذورہوں ۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی کثیر جہتی حکمت عملی میں درج ذیل شامل ہیں:
-
سزائے موت کے قیدیوں کی زندگیاں بچانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنا اور عدالتوں سے ایسے فیصلوں کے لیے رجوع کرنا جو عدالتی نظیر (Precedent) کے طور پر استعمال ہو سکیں؛
-
بریفنگ، مطبوعات، ورکشاپس اور دیگر ذرائع سے حکومتی عہدیداران اور عوام کو سزائے موت کے اطلاق سے متعلق آگاہ کرنا اور یہ بتانا کہ یہ سزا کس طرح سے انسانی حقوق اور اور اخلاقی اصولوں کی پامالی کا باعث بنتی ہے؛
-
سزائے موت کے اطلاق سے متعلق اعدادوشمار اکٹھے کرنا اور اس سزا کے استعمال کے دوران روا رکھے جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنا؛ اور
-
ریڈیو، تھیٹر، عوامی تقریبات اور ملکی و غیر ملکی اردو اور انگریزی میڈیا میں خبروں اور تحاریر کی اشاعت سے عوامی رائے سازی کی کوشش کرنا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدر پاکستان نے دسمبر 2016 میں جے پی پی کو قومی اعزاز برائے انسانی حقوق سے نوازا تھا۔
پاکستان میں سزائے موت کا استعمال
اکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سزائے موت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ سزائے موت کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی اتفاق رائے کے برعکس، پاکستان نے 2014 میں پھانسیوں پر عملدرآمد پرعائد چھ سالہ غیر رسمی پابندی (Moratorium) اٹھا لی تھی۔ یہ پابندی پشاور میں ایک سکول پر ہونے والے اندوہناک حملے کے نتیجے میں اٹھائی گئی تھی۔ تب سے اب تک پاکستان 511 افراد کو پھانسی دے چکا ہے۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی تحقیق (جس کی تازہ ترین مثال Counting the Condemned ہے)کے باعث آج ہم واقف ہیں کہ پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی کل تعداد 4688 ہے، جو سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق اعدادوشمار رپورٹ کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس تحقیق کے مطابق سزائے موت پانے والا ہر ساتواں فرد پاکستانی ہے اور ہرآٹھواں قیدی جس کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوتا ہے ، پاکستانی شہری ہے۔
پاکستان میں 33 جرائم ایسے ہیں جن کی پاداش میں موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے خصوصی بنچ نے 2014 سے 2018 کے دوران 85 فیصد اپیلوں میں ناقص تفتیش یا سماعت کی بنیاد پر سزائے موت ختم کی۔ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی پنجاب میں رہائش پذیر ہے لیکن پاکستان میں دی جانے والی پھانسیوں میں سے 83 فیصد پنجاب میں دی جاتی ہیں، اور سزائے موت سنائے جانے میں پنجاب کی عدالتوں کا حصہ 89 فیصد ہے۔جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایک اور تحقیق Counting Executions کے مطابق سزائے موت جرائم اور دہشت گردی کی روک تھام میں ناکام رہی ہے، اور ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔
اگرچہ جرائم اور دہشت گردی کی روک تھام اور سزائے موت کے اطلاق کے مابین تعلق سے متعلق کسی قسم کے شواہد موجود نہیں، گزشتہ دو دہائیوں کے اعدادوشمار کا مطالعہ معاشی عدم مساوات، سیاسی تشدد اور عدم استحکام ،اور قتل کی شرح کے درمیان گہرا تعلق ظاہر کرتا ہے۔ اس دوران جب بھی پاکستان کی فی کس جی ڈی پی کی شرح نمو دو فیصد سالانہ سے کم رہی ہے، قتل کے واقعات کی شرح 7.5 فی 100,000 یا اس سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے۔
ڈیٹا بیس کے بارے میں
سٹس پراجیکٹ پاکستان نے سزائے موت کے قیدیوں کے لیے کام کے دوران پھانسیوں اور سزائے موت سے متعلق مواد اکٹھا کیا ہے۔ HURIDOCS کے تکنیکی تعاون سے جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے اپنی تحقیق کو ایک اوپن سورس ڈیٹا بیس کی شکل دی ہے۔ یہ منصوبہ سزائے موت سے متعلق اعدادوشمار تک عام رسائی فراہم کرنے کی پہلی کڑی ہے، جس کا مقصد محققین، صحافیوں، وکلاء ، طلبہ، انسانی حقوق کے کارکنان اور عام لوگوں کو اس غیر انسانی اور غیر منصفانہ سزا سے متعلق مستند اعدادوشمار مہیا کرنا ہے۔ یہ ڈیٹا بیس نہ صرف جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے اعدادوشمار تک رسائی فراہم کرتا ہے، بلکہ عام افراد کو اس میں مزید مواد کی شمولیت کی دعوت بھی دیتا ہے۔
علاوہ ازیں ، اس مواد تک آن لائن رسائی کے ذریعے پاکستان میں موت کی سزا سے متعلق رائے سازی اور Advocacy کے بہتر مواقع میسر آ سکیں گے۔ اعدادوشمار کی بنیاد پر چلائے جانے والی Advocacy مہمیں زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اس ڈیٹا بیس کے ذریعے سزائے موت سے متعلق اعدادوشمار اکٹھے کرنے، انہیں ریکارڈ کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس ڈیٹا بیس میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد اور ان کے کوائف، پھانسیوں سے متعلق اعدادوشمار اور تجزیات شامل ہیں۔ اس ڈیٹا بیس میں مستعمل اصطلاحات کی ایک فہرست بھی مرتب کی گئی ہے۔
تحقیقی طریق کار
سزائے موت سے متعلق اعدادوشمار اکٹھے کرنے، ن کی تصدیق کرنے اور اضافی معلومات حاصل کرنے کے لیے جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے ایک سہ قدمی طریق کار وضع کیا ہے۔ پھانسیوں سے متعلق ابتدائی معلومات عموماً اخباری خبروں، پریس ریلیز، پھانسی پانے والے قیدیوں کے اہل خانہ یا ان کے ساتھی قیدیوں سے اکٹھی کی جاتی ہیں۔ جس کے بعد اس کی تصدیق سزائے موت کے قیدیوں کی فہرست سے کی جاتی ہے۔ جس کے بعد متعلقہ جیل حکام سے اس خبر کی تصدیق کی جاتی ہے۔
سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق معلومات کے لیے بھی اخباری اطلاعات، قیدیوں کے اہل خانہ یا متعلقہ حکام کی دی گئی معلومات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ تاہم سزائے موت کے قیدیوں کے حوالے سے معلومات کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق مشکل ہے۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق کوائف بھی اکٹھے کرتا ہے۔ ان کوائف میں مبینہ جرم کی تفصیل، ٹرائل کورٹ اور کال کوٹھڑی میں گزارے گئے وقت جیسی معلومات شامل ہیں۔